فرا شب کی اذیتوں کا کلام دکھ ہے تمام دکھ ہے

فرا شب کی اذیتوں کا کلام دکھ ہے تمام دکھ ہے
یہاں ہر اک موڑ پر ہر اک شے کا نام دکھ ہے تمام دکھ ہے


سمجھ سکا ایک بھی نہ جب وہ سوال میرا جواب میرا
لگے ہے مجھ کو کہ میرا سارا کلام دکھ ہے تمام دکھ ہے


خوشی بھی آوے ہے اور غمی بھی یہ زندگی کا سفر ہے پیارے
خوشی ہے مظہر بہار کا غم کا نام دکھ ہے تمام دکھ ہے


قدم جمائے کھڑے رہو تم نہ حوصلے پست ہونے دینا
ہے آنے والا جو ایک آگے مقام دکھ ہے تمام دکھ ہے


یہ سسکیاں یہ مہیب راتیں یہ بے قراری امیر حمزہؔ
ہیں روگ جتنے بھی ان سبھی کا امامؔ دکھ ہے تمام دکھ ہے