تجھ پہ دونوں نثار ہیں قاتل
تجھ پہ دونوں نثار ہیں قاتل
جان مضطر ہو یا دل بسمل
قہر ہے قہر عشق کی منزل
ہر قدم آگ ہے نئی مشکل
ہو گئے دیکھ کر وہ آئینہ
اپنی صورت پہ آپ ہی مائل
غم سے آزاد کر دیا ہم کو
کیوں نہ پیر مغاں کے ہوں قائل
کس قدر دل کشا فضا ہوگی
آپ جب ہوں گے زینت محفل
آدمیت کو ناز تھا جن پر
اب وہ دانا رہے نہ وہ عاقل
چارہ سازی مریض الفت کی
آپ کے واسطے نہیں مشکل
آرزوؤں میں مچ گئی ہلچل
کون یہ یاد آ گیا اے دل
تو ابھارے جو ہم کو پستی سے
تجھ کو یا رب نہیں کوئی مشکل
ہائے جو بات بھی کہی میں نے
زیر لب تو نے کہہ دیا مہمل
کیا بھروسہ کریں کسی پہ نریشؔ
آدمی آدمی کا ہے قاتل