ترے ذوق بندگی کا رہے معترف زمانہ
ترے ذوق بندگی کا رہے معترف زمانہ
اسے سجدہ کر کے ندرتؔ کبھی ہوش میں نہ آنا
وہ سجود شوق پیہم وہ کسی کا آستانہ
وہی ڈھونڈھتی ہیں آنکھیں جو گزر گیا زمانہ
ترے ساتھ میں حرم میں ترے ساتھ بت کدہ میں
نہ کہیں قرار تجھ کو نہ کہیں مرا ٹھکانا
میں اسے ادا کروں گا جو ہے فرض عشق مجھ پر
مگر اپنے عہد و پیماں کہیں تم نہ بھول جانا
یہ چمن کی دل فریبی یہ مشاہدے کی دنیا
یہ گلوں میں رنگ بن کر ترے حسن کا سمانا
یہ ادائے دل شکن بھی مجھے ہے امید افزا
مرا حال غم سنانا ترا سن کے مسکرانا
مجھے داد دے نہ کیونکر مری ہمت اسیری
کہ تمام عمر سمجھا میں قفس کو آشیانہ
بجز اس کے کچھ نہیں ہے مری زندگی کا حاصل
ترا درد دل میں رکھنا ترے غم سے لطف اٹھانا
وہیں آسماں سے ندرتؔ گرے برق اک اچانک
جو کروں میں یہ تصور کہ قفس ہے آشیانہ