ترے یقین کے قابل اگر نہیں تو نہ ہو

ترے یقین کے قابل اگر نہیں تو نہ ہو
جو داستان وفا معتبر نہیں تو نہ ہو


ہزار رنج اٹھا کر بھی مسکرائیں گے
حیات عشق اگر مختصر نہیں تو نہ ہو


بہار آئے تو کیوں کر قفس میں چین پڑے
اگر کسی کو غم بال و پر نہیں تو نہ ہو


اب اٹھ کے جائیں کہاں بت کدے کی راہ ہیں ہم
یہ راستہ بھی تری رہ گزر نہیں تو نہ ہو


غم حیات کا شکوہ بھی کچھ نہیں ہے مجھے
جو میرے حال کی ان کو خبر نہیں تو نہ ہو


انہیں میں وعدہ فراموش کہہ نہیں سکتا
مدار زیست اس امید پر نہیں تو نہ ہو


مجھے تو منزل مقصود تک پہنچنا ہے
رہ وفا میں کوئی ہم سفر نہیں تو نہ ہو


نہیں ہے ناز مجھے اپنی شعر گوئی پر
مرے کلام میں فکر و نظر نہیں تو نہ ہو


نوید مرگ مبارک خوشا یہ ہجر کی رات
مرے نصیب میں ندرتؔ سحر نہیں تو نہ ہو