کون کہتا ہے کہ محروم کرم ہیں ہم لوگ

کون کہتا ہے کہ محروم کرم ہیں ہم لوگ
لطف اندوز جفا محو ستم ہیں ہم لوگ


زلف سلجھی ہے تو اک حسن نکھر آیا ہے
اس طرف دیکھ کہ آئینۂ غم ہیں ہم لوگ


کوئی خاطر میں نہ لائے تو نہ لائے لیکن
شاید اس دور محبت میں اہم ہیں ہم لوگ


لائق لطف و عنایت نہیں ہم اہل وفا
کیا کہا یہ کہ سزا وار ستم ہیں ہم لوگ


کم نہیں تیرا تغافل بھی جفا ہو کہ نہ ہو
اس میں کیا شک ہے کہ ممنون کرم ہیں ہم لوگ


اہل کعبہ کو شکایت ہے تو بے جا بھی نہیں
کہ حقیقت میں پرستار صنم ہیں ہم لوگ


فاصلہ کچھ بھی نہیں ہے مگر ادراک کہاں
آپ سے دور تو دو چار قدم ہیں ہم لوگ


آپ علامہ و فن کار ہیں ندرتؔ لیکن
یہ تو فرمائیے کس بات میں کم ہیں ہم لوگ