کہاں تک ضبط کرتا بے خودی سے آشنا ہو کر
کہاں تک ضبط کرتا بے خودی سے آشنا ہو کر
نقاب راز میں نے بھی الٹ دی لب کشا ہو کر
حیات عشق کی ہر سانس صرف جستجو کر دے
لطافت دل کی زائل کر نہ منزل آشنا ہو کر
خدا معلوم اس کی جستجو مجھ کو کہاں لائی
کہ خود بھی کھو گیا ہوں اپنے مرکز سے جدا ہو کر
فضائے دہر کر دی پر سکوں کیف ترنم سے
کسی نے پردۂ ہر ساز سے نغمہ سرا ہو کر
بدل دی حسن کی فطرت مری شان تخیل نے
وہ مجبور کرم خود ہو گئے صبر آزما ہو کر
مجھے اس عالم حیرت میں لائے ہیں ترے جلوے
کہ تیرا آئینہ میں بن گیا ہوں خود نما ہو کر
مجھے اس بے نیازی پر نہ دے الزام خودداری
کہ آیا ہوں ازل سے نا شناس مدعا ہو کر