ترے نام سے مجھے عشق ہے ترا کیا نشاں ہے خبر نہیں
ترے نام سے مجھے عشق ہے ترا کیا نشاں ہے خبر نہیں
ہے خبر بھی گر تو اسی قدر تو کہاں نہیں تو کدھر نہیں
کبھی جا کے کوہ میں گھر گیا کبھی جا کے دشت بسا لیا
جسے لا مکاں کی ہو جستجو کہیں اس کا گھر نہیں در نہیں
غم زندگی بھی لٹا دیا زہے جس نے راہ فراق میں
جسے اپنے تن کا نہ ہوش ہو وہ ہے اور کوئی بشر نہیں
مجھے مست جام شراب کر نہ تو رخ کو زیر نقاب کر
کسے بے خودی میں یہ ہوش ہو ترا جلوہ شام و سحر نہیں
کوئی دیکھے ارماںؔ کی بے بسی ہے عجیب حالت بے کسی
نہیں ضبط سے کوئی فائدہ کرے آہ تو بھی اثر نہیں