پایندہ حسن و زینت باغ جہاں نہیں

پایندہ حسن و زینت باغ جہاں نہیں
وہ کون سی بہار ہے جس کو خزاں نہیں


واقف وہ میرے حال سے میں ان کے حال سے
شرم و حیا سے گفتگو گو درمیاں نہیں


اس کی نگاہ پھرتے ہی سب ہم سے پھر گئے
وہ مہرباں نہیں تو کوئی مہرباں نہیں


اے بادہ نوش پیتا ہے خلوت میں چھپ کے تو
وہ کون سی جگہ ہے بتا وہ جہاں نہیں


الفت کا یہ اثر ہے کہ رگ رگ میں ٹیس ہے
میں کیا بتاؤں درد کہاں ہے کہاں نہیں


دنیا ہو بد گمان نہیں اس کا غم مجھے
اے دل ہزار شکر کہ وہ بد گماں نہیں