بیتابیٔ دل شوق کا اظہار نہ کر دے
بیتابیٔ دل شوق کا اظہار نہ کر دے
اس شوخ کو الفت سے خبردار نہ کر دے
گر یہ ہی فراوانیاں ہیں درد و الم کی
یہ عشق کہیں جینے سے بیزار نہ کر دے
ہے ان کو شفا پرسش در پردہ سے منظور
ڈر ہے یہ مجھے اور بھی بیمار نہ کر دے
وہ پوچھتے ہیں ہے تجھے کیا مجھ سے محبت
میرا دل ناداں کہیں اقرار نہ کر دے
ارماںؔ کو ترا دیکھنا مڑ کر دم رخصت
خوابیدہ تمناؤں کو بیدار نہ کر دے