ترے ہر ایک ستم کا حساب اترے گا

ترے ہر ایک ستم کا حساب اترے گا
خدا کا تجھ پہ ستم گر عذاب اترے گا


بہت غرور ہے تجھ کو ابھی جوانی پر
کبھی تو تیرا یہ رنگ و شباب اترے گا


ستم حدوں سے بڑھے گا تو آسماں سے کوئی
ستم گروں کو وہ دینے جواب اترے گا


حقیر مجھ کو سمجھتا ہے تو ارے ناداں
میں ٹھان لوں تو ابھی آفتاب اترے گا


بڑھے گا ظلم حدوں سے جب اس زمانے میں
یقین مانو کوئی انقلاب اترے گا


لگے گی آگ چمن میں قمرؔ تو ہوگا دکھ
دھواں اٹھے گا تو آنکھوں میں آب اترے گا