مجھ سے تو اب یہ نظارا نہیں دیکھا جاتا
مجھ سے تو اب یہ نظارا نہیں دیکھا جاتا
کوئی اترا ہوا چہرہ نہیں دیکھا جاتا
ان کی آنکھوں کے رلا دیتے ہیں آنسو مجھ کو
ظلم انسان پہ ہوتا نہیں دیکھا جاتا
پھول افسردہ ہیں اور سہمی ہوئی کلیاں ہیں
ایسا عالم تو چمن کا نہیں دیکھا جاتا
بند نفرت کی سیاست کو کرو اہل وطن
ہم سے اب تو یہ تماشا نہیں دیکھا جاتا
کون آتا ہے بھلا بات ہماری سننے
دکھ کسی سے بھی ہمارا نہیں دیکھا جاتا
خود ہی جب منزل مقصد کا سفر کرنا ہو
پھر کسی کا بھی سہارا نہیں دیکھا جاتا
خون مظلوم سے اخبار ہوئی سرخ قمرؔ
خون آلودہ سویرا نہیں دیکھا جاتا