قائم کہاں کسی کا صدا رہ سکا ستم

قائم کہاں کسی کا صدا رہ سکا ستم
ہے چند روزہ بس یہ ستم گر ترا ستم


کب تک تو ظلم ڈھائے گا کب تک ستائے گا
ظالم سمجھ کے سوچ کے تو ہم پہ ڈھا ستم


تیرے یہ تخت و تاج نہ کچھ کام آئیں گے
ہمت سے میری جب ترا ٹکرائے گا ستم


ظالم وہ ایک روز زمانے سے مٹ گیا
مظلوموں پر جو ڈھاتا رہا تھا بڑا ستم


منصف ہے تیرا تیری عدالت غلام ہے
روکے گا تجھ کو کون تو جی بھر کے ڈھا ستم


ہم پر نہیں کسی کی نظر آج مہرباں
جس کو بھی دیکھو ہم پہ وہ ہی کر رہا ستم


کھولے جو میں نے ہونٹ قمرؔ سی دئے گئے
حق بولنے سے لگتا ہے خود پر کیا ستم