محبت کے فسانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
محبت کے فسانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
ستم گر اس زمانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
بتا پھر کیسے ہوگی ختم یہ نفرت کی تاریکی
نئے سورج اگانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
لگے کیسے پتا ہے کون اپنا کون بیگانہ
کسی کو آزمانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
بتا پھر کس نے بھڑکائی چمن میں آگ نفرت کی
کسی کا گھر جلانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
کہاں وہ نغمگی ملتی ہے اب صحن گلستاں میں
کوئی نغمہ سنانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
جنم دے نفرتوں کو اور تعصب کو جو پھیلائے
سبق ایسا پڑھانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
نہیں ہے کام کوئی بھی سیاست میں مرا تیرا
کسی پر ظلم ڈھانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف
قمرؔ حق کون پھر چھینے ملا کر آنکھ باطل سے
نظر اس سے ملانے سے نہ میں واقف نہ تو واقف