ترا وعدہ تھا وعدہ رہ گیا ہے
ترا وعدہ تھا وعدہ رہ گیا ہے
ہمارا صبر تکتا رہ گیا ہے
وہی ہے درد آنکھوں میں ابھی تک
جو تجھ سے عشق آدھا رہ گیا ہے
مرے وہ زخم سارے بھر گئے تھے
مگر دل پھر بھی ٹوٹا رہ گیا ہے
ادھورے خواب سارے مٹ گئے ہیں
تمہارا نام لکھا رہ گیا ہے
روانہ کب سے گاڑی ہو گئی ہے
ہمارا ہاتھ ہلتا رہ گیا ہے
مصور ٹھیک ہے تصویر ساری
مرا چہرا کیوں سادہ رہ گیا ہے
غزل اقراؔ مکمل ہو چکی ہے
مگر سر ہے کہ دکھتا رہ گیا ہے