ہر اذیت سے گزارے ہوئے لوگ
ہر اذیت سے گزارے ہوئے لوگ
ہم ترے ہجر کے مارے ہوئے لوگ
کتنی جلدی ہے اتارا دل سے
کتنی جلدی تمہیں پیارے ہوئے لوگ
راس آتی نہیں کوئی بھی شے
ہم ترے عشق پہ وارے ہوئے لوگ
کاش آ سکتے پلٹ کر پھر سے
ہائے وہ لوگ گزارے ہوئے لوگ
پھول بھی سوکھ گئے رستوں پہ
جانے کب آئیں پکارے ہوئے لوگ
کیا کوئی ہم کو ہراتا اقراؔ
ہم تو ہیں خود سے ہی ہارے ہوئے لوگ