جب خیالوں میں تمہیں پاس بٹھاؤں اکثر

جب خیالوں میں تمہیں پاس بٹھاؤں اکثر
میر کے شعر ہوں لب پر انہیں گاؤں اکثر


دفن کر کے سبھی وعدوں کو جہاں بچھڑے تھے
وہ شجر دیکھنے جاتی ہوں میں گاؤں اکثر


میں گلا کیسے کروں تم نے مجھے روندا ہے
اپنے سائے پہ بھی آ جاتا ہے پاؤں اکثر


جب ترے بعد ترا ہجر ستائے مجھ کو
تجھ کو میں یاد کروں بھول بھی جاؤں اکثر


کیسا رشتہ ہے مرا تم سے مجھے علم نہیں
تم اگر روٹھو تو میں خود کو مناؤں اکثر


میرا دعویٰ ہے تجھے چھوڑ دیا ہے میں نے
پھر ترا ذکر ہی کیوں شعروں میں لاؤں اکثر


عافیہؔ آئنہ دیکھا ہی نہیں مدت سے
خود سے میں بعد ترے آنکھ چراؤں اکثر