ترا پیکر ترا سایا نہیں ہے

ترا پیکر ترا سایا نہیں ہے
کوئی بھی تو ترے جیسا نہیں ہے


جو گزرا ہے تری چاہت سے ہٹ کر
وہ میری زیست کا لمحہ نہیں ہے


سمندر میں چھپے ہیں کتنے طوفاں
یہ ساحل کو بھی اندازہ نہیں ہے


مری ہر سانس ہے تجھ سے عبارت
عبادت کا مجھے دعویٰ نہیں ہے