ٹِنکرنگ لیب: جہاں سائنس مجسم نظر آتی ہے

ہم چوتھے صنعتی انقلاب کے دہانے پر ہیں،اکیسویں صدی میں دیوہیکل چھلانگ لگاتی  ترقی انسانی تخیل ،حیرت، تجسس  اور تسخیر کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ دور جدید کو ڈیجیٹل ورلڈ سے تعبیر کیا جاتا ہے  ۔زندگی کا ہر شعبے میں اس کے اثرات نمایاں ہیں۔اسی طرح سماج کی بنیادی اکائی یعنی شعبہ تعلیم میں بھی جدتیں اور تغیر پذیر اقدامات ناگزیر ہیں۔جدید تدریسی رجحانات میں اکیسویں صدی کی مہارتوں (سوفٹ سکلز) پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔تعلیم کو صرف کمرا جماعت اور درسی کتب تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ روزمرہ زندگی کے مسائل اور چیلنجز کا موئثر،تیز، سمارٹ اور قابل عمل حل تلاش کرنے، آئیڈیاز(تخلیات) کو  مجسم صورت دینے، اور تجسس،جدت اور تسخیر کی صلاحیتوں میں نکھار اور طرزِ نو اپنانے والے بنیں۔ چنانچہ تجرباتی  اور عملی تعلیم و تدریس پر توجہ دینے کی  اشد ضرورت ہے۔لیکن ہمارے ہاں سکول سطح کی تعلیم ،جہاں محض نظری تصورات (تھیوری)، رٹا سسٹم اور نمبروں کی غیر فطری دوڑکے ماحول  ہو،وہاں  انسانی تخیل ،تخلیق  اور تجسس  کی وسعت اور حیرت سامانی کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟ہم نے نمبروں کی دوڑ میں اپنے بچوں  کوخواہ مخواہ  ہلکان کیا ہوا ہے اور ان کی تخلیقیت ،تجسس اور تخیل کی صلاحیتیں دفن کرکے رکھ دی ہیں۔ چنانچہ تعلیم  کے دونوں پہلوؤں(نظری اور عملی میدان ) میں مطابقت پیدا کی جائے،سائنس اور ٹیکنالوجی کے ربط ،ان علوم و فنون کی معاشرتی اور معاشی حیثیت،توانائی اور بجلی کی کفایت کے نت نئے طریقوں ،دور دراز محوِ پرواز سیاروں اور کہکشاوں کے نظارے اور ان جیسے بے شمار مظاہر اور آلات کا ایسا حسین مرقع پیش کیا جائے کہ برسوں یاد رہے ۔

ہمارے ہاں عمومی طور پر سکول سطح پر  سائنسی تدریس  کو صرف کلاس روم لیکچر تک محدود رکھا جاتا ہے۔ہمارے نصابِ تعلیم  میں سائنس  اور سماجی علوم کے تصورات کو بہت پھیکے،مبہم اور غیر دل چسپ انداز  سے شامل کیا گیا ہے۔ہمارے ہاں سائنس کی عملی تعلیم سے متعلق صورت حال کوئی تسلی بخش نہیں ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں سرکاری اور پرائیویٹ دونوں سکولز میں حقیقی معنوں میں  پہلے تو سرے سے کوئی تجربہ گاہ (سائنس لیب یا کمپیوٹر لیب) موجود ہی نہیں ہے اور جہاں پر موجود ہے وہ صرف نمائشی یا غیر فعال ہے۔میٹرک سطح تک سائنس لیب  کی افادیت کیا ہونی ہے جب امتحانات میں پریکٹیکل بک بازار سے تیار شدہ  مل جاتی ہو اور  پریکٹیکل ورک کے نمبر سفارش یا نقل سے حاصل کرلیے جاتےہوں۔نتیجتاً میٹرک اور ایف ایس سی کا سائنس کا نصاب طلبا میں سائنسی طرزِ فکر، تنقیدی سوچ، تخلیقیت، پرابلم سولوِنگ جیسی بنیادی مہارتیں پیدا کرنے سے ہی محروم ہے۔ میٹرک کا ایف ایس سی میں 90 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ بنیادی سائنسی تصورات سے واقف تک نہیں ہوتے۔۔۔نہ ان کی سوچ سائنسی طریقہ کار کے مطابق ہوتی ہے۔ کمپیوٹر لیب بھی صرف بنیادی تصورات اور رٹہ سسٹم کا حصہ ہیں،کمپیوٹر ٹیچر نے ان کو ڈیجیٹل لٹریسی، فری لانسنگ،ڈیجیٹل مارکیٹنگ،موبائل ایپس ، سوشل میڈیا نیٹ ورک اور کمپیوٹنگ سکلزکا روزمرہ استعمال کبھی سکھایا ہی نہیں۔اسی طرح سائنس لیب  بھی چند کیمکلز،آلات اور چند پرانے ٹولز نمائش یا محکمانہ معائنے کے لیے رکھے ہوتے ہیں۔یاد رہے کہ تجربہ گاہ سے ہماری مراد صرف  روایتی سادہ سائنس لیب یا کمپیوٹر لیب نہیں ہے بلکہ ایسی جگہ جہاں پر بچہ آزادی سے جو سوچے، جو چاہے اس کو عملی صورت دینے کے لیے آلات،مواد ، اشیا اور ٹولز/سامان میسر ہوں۔جدت اور اختراع درسی کتب سے نہیں ذاتی تخیل،تجربے اور خود کام کرنے سے ممکن ہوتی ہے۔جدید دنیا میں ایسی تجربہ گاہ 'ٹِنکرلیب' یا 'ٹِنکرنگ لیبارٹری' (Tinkering Laboratory)  یا میکر سپیس کہا جاتا ہے۔

ِٹنکرنگ کوئی نیا تصور یا طریقہ تحقیق نہیں ہے بلکہ انسانی جبلت میں ودیعت کی گئی جستجو،تسخیر اور جدت کی تلاش کی صلاحیت یا قابلیت کی تسکین کا عملی اظہار ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ  ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ لیکن ٹِنکرنگ کو سکول سطح یا طلبہ کو ترغیب دلانے کا پہلی بار تصور امریکی معلم،محقق اور کمپیوٹر سائنسٹسٹ گیوَر ٹیولے   (Gever Tulley)  نے 2004 میں پیش کیا۔ انھوں 2005 میں ابتدائی طور پر سمر کیمپ اور بعد ازاں ویک اینڈ کلاسز کے طور پر ٹِنکرنگ سکول قائم کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں میں تجسس، تسخیر اور تخلیقی سوچ کے نکھار اور مفید بنانے کے لیے ان کو آزادی سے کام کرنے یعنی Do It Yourself (DIY)  اور Hands on  سرگرمیوں  کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس طرح سکول سطح سے ہی طلبہ میں تخلیقی اور تنقیدی سوچ کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ملک اور دنیا کے لیے بھی تحقیق کے نئے وا در ہوں گے۔

ٹِنکر لیب یا میکر سپیس کوئی روایتی قسم کی سائنس لیب،لکڑی کی دکان،کمپیوٹر لیب یا آرٹ روم تو نہیں ہے لیکن اس میں ان کے  تمام سامان اور سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔یہ ایک کثیر الجہتی (ملٹی ڈائی مینشنل) اور وسیع البنیاد سرگرمیوں،آلات،سامان(ٹولز) اور مواد  سے بھر پور لیب ہے۔اس میں مختلف قسم کی چیزوں کو خود ڈیزائن کیا،بنایا اور پراسس کیا جاتا ہے۔یہ ایک قسم کی چھوٹے پیمانے کی فیکٹری کا درجہ رکھتی ہے جہاں تخلیات  کو حقیقت کا روپ دیا جاتا ہے اور روزمرہ زندگی کے مسائل  کے حل کے  متبادل راستے اور طریقے تلاش کیے جاتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک  فورم کی 2020 کے آغاز میں شائع کردہ  ایک رپورٹ  ‘Schools of Future’میں تعلیم کے مستقبل کی صورت گری کی  گئی ہے ۔ اس تصویر میں انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ روایتی اورفرسودہ تعلیم کی مستقبل میں کوئی گنجائش نہیں ہے، مستقبل میں بچوں میں پڑھائی اور لکھائی کے ساتھ ساتھ کچھ اور صلاحیتیں پیدا کرنا ہوں گی تب ہی وہ  آنے والے دور کا مقابلہ کرپائیں گے۔ انہیں قیادت کرنے، لوگوں سے معاملات کرنے، ٹیم ورک کرنے ، ٹیکنالوجی کے انسان دوست انداز میں استعمال اور عالمی شہریت جیسی مہارتیں اپنےاندر پیدا کرنا ہوں گی ، تب وہ اس مشکل اور حیرت انگیز دور  میں اپنی بقا کا اہتمام کر پائیں گے۔ یہ رپورٹ دراصل بہترین کی بقا، کے قانون کے اطلاق کی پیش گوئی کررہی ہے ، یہ بقا صرف ان لوگوں کے حصے میں آنے والی ہے جو اپنے اندر آنے والے دور کی مطلوبہ مہارتیں  بدرجہ کمال پیدا کرنے کی سعی و جہد کریں گے  اور حقیقی معنوں میں ایک عالمی ریاست کے شہری بننے کے لیے خود کو تیار کرپائیں گے۔اس رپورٹ میں  دنیا کے 16 سکولوں کا ماڈل پیش کیا ہے جو دنیا میں جدت،اکیسویں صدی کی مہارتوں، آؤٹ آف باکس سوچنے  اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی روایت کے علمبردار ہیں۔ان میں گرین سکول انڈونیشیا، دی نالج  سوسائٹی کینیڈا،ٹیکی سٹیم (TEKY STEM) ویت نام،آئی اَرن (iEARN) سپین،اینجی پلے (Anji Play) چین، اور Innova Schools پیرو نمایاں ہیں۔ان کے نصاب،سرگرمیوں،طریقہ تدریس اور پروجیکٹ بیسڈ لرننگ کی بدولت ان کو ٹِنکرنگ سکولز کہنا بالکل بجا ہوگا۔