تھکن سے دور ہر اک منزل حیات رہے

تھکن سے دور ہر اک منزل حیات رہے
ترا خیال سفر میں جو ساتھ ساتھ رہے


مٹا دیا انہیں خود وقت کے تقاضوں نے
جو لوگ وقت کے مرہون التفات رہے


ہر ایک حادثۂ زیست سے گزر جائیں
ہمارے ہاتھ میں جو زندگی کا ہاتھ رہے


جو اپنی ذات میں دریا بھی تھے سمندر بھی
لب فرات وہی تشنۂ فرات رہے


وہ اجنبی کی طرح آج ہم سے ملتے ہیں
تمام عمر جو خسروؔ ہمارے ساتھ رہے