اس طرح دل میں تری یاد کے پیکر آئے

اس طرح دل میں تری یاد کے پیکر آئے
جیسے اجڑی ہوئی بستی میں پیمبر آئے


ذات کے غم تھے کہ حالات کے جلتے سائے
بڑھتے بڑھتے جو مرے قد کے برابر آئے


اوڑھ لی میں نے تری یاد کی چادر اے دوست
جب بھی سر پر مرے حالات کے پتھر آئے


کبھی ایسا بھی ہو دل میں یہ خیال آتا ہے
زخم اوروں کے لگے آنکھ مری بھر آئے


جن کو اخلاص کا دعویٰ تھا وہی دوست مرے
آستینوں میں چھپائے ہوئے خنجر آئے


اپنی آنکھوں میں سوالات کی بوچھار لئے
کتنے چہرے مرے ماضی سے نکل کر آئے


کیا بتاؤں کہ در ذہن سے شہر دل تک
کتنے بیتے ہوئے لمحات کے لشکر آئے


مسکراؤں میں حالات کا مجرم کہلاؤں
روؤں تو شکوؤں کا الزام مرے سر آئے


حق کی راہوں میں قدم جب بھی بڑھے ہیں خسروؔ
راہ دکھلانے مجھے راہ کے پتھر آئے