ڈھلتے ہوئے سورج کی ضیا دیکھ رہے ہیں
ڈھلتے ہوئے سورج کی ضیا دیکھ رہے ہیں
صدیوں سے بھی انجام وفا دیکھ رہے ہیں
بدلی ہوئی گلشن کی ہوا دیکھ رہے ہیں
پھولوں میں بھی کانٹوں کی ادا دیکھ رہے ہیں
راہوں میں بھٹک جاتے ہیں کس طرح مسافر
منزل پہ کھڑے راہنما دیکھ رہے ہیں
تاریخ کے چہرے سے نئے دور کے ہاتھوں
مٹتی ہوئی تحریر وفا دیکھ رہے ہیں
لگتا ہے کہ بستی میں کوئی بات ہوئی ہے
ہر شخص کو مصروف دعا دیکھ رہے ہیں
اچھا ہے برس جائے اگر دل کی زباں پر
ہم دوش پہ زلفوں کی گھٹا دیکھ رہے ہیں
گلیوں میں مدینے کی ابھی دیکھنے والے
سرکار کے نقش کف پا دیکھ رہے ہیں
احساس کے ٹوٹے ہوئے آئینے میں خسروؔ
جلتی ہوئی ہم اپنی چتا دیکھ رہے ہیں