صحراؤں کی پیاس بجھانے

صحراؤں کی پیاس بجھانے
کب آئے برسات نہ جانے


مجھ کو میری یاد دلانے
آئے ہیں کچھ دوست پرانے


جانے گھر کس کس کے جلیں گے
نکلے ہیں وہ جشن منانے


خوابوں کی وادی میں ملے ہیں
بیتے لمحے گزرے زمانے


وقت کے ٹوٹے آئینے میں
چہرے ہیں سب جانے پہچانے


تم سے ملے تو یاد آیا ہے
دیکھے تھے کچھ خواب سہانے


رات کی بانہوں میں کھلتے ہیں
تیری یادوں کے میخانے


امیدیں گھر چھوڑ چکی تھیں
کب آئے ہیں ہوش ٹھکانے


دشت کی جلتی ریت پہ خسروؔ
وقت لکھے گا اپنے فسانے