وہ محبت نہ سہی درد محبت ہی سہی

وہ محبت نہ سہی درد محبت ہی سہی
کچھ تو مل جائے ہمیں آپ کی نفرت ہی سہی


دست قدرت کا بنایا ہوا شہکار تو ہے
آدمی آج کا اک حرف ملامت ہی سہی


ان کی قسمت میں سمندر کا سکوں لکھا ہے
اپنی تقدیر میں صحراؤں کی وحشت ہی سہی


شہر میں تیرے تھکے پاؤں مسافر کے لئے
دو گھڑی بیٹھ کے دم لینے کی فرصت ہی سہی


آنکھ جلتے ہوئے لمحوں سے ملانا ہوگا
دل میں بیتی ہوئی صدیوں کی حلاوت ہی سہی