تھک گیا جب جسم و جاں کے بوجھ کو ڈھوتے ہوئے
تھک گیا جب جسم و جاں کے بوجھ کو ڈھوتے ہوئے
چل دیا وہ موت کے آغوش میں سوتے ہوئے
مجھ کو پڑھنا تھا کہ پورے خواب اپنے کر سکوں
بیچ آیا مفلسی کا واقعہ روتے ہوئے
آنکھ بھر آتی ہے جب دیکھوں وہ بچہ ریل میں
وہ کھلونے بیچتا ہے بچپنا کھوتے ہوئے
میں بڑی ہوں یہ انا بھی گر پڑی تھی تب مری
جب مرا سایا دکھا مجھ سے بڑا ہوتے ہوئے
دوست کیوں سادہ کفن اوڑھا دیا تم نے مجھے
مجھ کو جانا تھا مرے اشعار میں سوتے ہوئے