اس صدی میں تو صداقت پر ستم ایسا ہوا ہے
اس صدی میں تو صداقت پر ستم ایسا ہوا ہے
پاؤں چھوڑو پر پسارے چھل کپٹ پھیلا ہوا ہے
ہاں دھوئیں پہ قتل کا الزام آئے گا یقیناً
کیونکہ یہ ہر مرتبہ کچھ خاک کر پیدا ہوا ہے
اک طرف رکھی محبت اک طرف ہے فکر یعنی
اک ترازو میں وزن کا ایک ہی پلڑا ہوا ہے
دیکھتے ہیں بت سبھی یہ مسئلہ حیران ہو کر
کس قدر یاں آدمی اب آپ ہی مولیٰ ہوا ہے
رات بھر دکھتا رہا اک شخص مجھ کو خواب بن کر
سوچ کر وہ خواب ہی دن آج کا ضائع ہوا ہے