تیری اک بات پہ یوں دل سے ترانے نکلے
تیری اک بات پہ یوں دل سے ترانے نکلے
جیسے امید کے جگنو کے ٹھکانے نکلے
کیا ہوا تیرا کرم جو نہ ہوا گر مجھ پہ
میری الفت کے گھروندے سے خزانے نکلے
اتنا آساں نہ تھا ان سے مرا دوری رکھنا
کس طرح عزم کو ہم اپنے نبھانے نکلے
ہم نے جانا تھا محبت کا صلہ ہوگا غم
پھر بھی کیا سوچ کے ہم عمر گنوانے نکلے
ان کے آنے کی ہو آہٹ تو مجھے لگتا ہے
میری تنہائی سرابوں سے سجانے نکلے
جب بھی احساس مسرت ہوا اک پل کو تبھی
نیند سے درد کو میرے وہ جگانے نکلے
جو نہ کہنا تھا کبھی آج وہ اشعار بنائیں
پھر یہ معذور غزل سب کو سنانے نکلے
تم سے جو ہو نہ سکا ہم بھی کہاں تھے ماہر
عشق کی راہ پہ ناکام سیانے نکلے
واسطہ اتنا ہی رہتا ہے صباؔ ان سے یہ
چشم پر نم کو ستاروں سے سجانے نکلے