میں ہوں نا مراد وفائے غم نہ تو میں نصیب بہار ہوں
میں ہوں نا مراد وفائے غم نہ تو میں نصیب بہار ہوں
جو نہ کھل سکے وہی گل ہوں میں کہ چمن کا میں وہ فگار ہوں
مرے غم کی راہوں سے نہ مرا کبھی حسرتوں کا سرا ملا
میں محبتوں کی گلی میں گم ہوا جستجو کا غبار ہوں
میرے دل سے گزری جو آج تک وہ ہوا تھی تیری تلاش میں
تجھے دیکھ کر جو بکھر گیا میں وہ ٹوٹے دل کا قرار ہوں
میری آنکھ سے جو ٹپک گئے وہ تھے موتی تیری ہی یاد کے
جو چھپا کے بھی نہ چھپ سکا وہ ترے ستم کا شمار ہوں
تجھے پا کے بھی تجھے کھو دیا میں نے خود کو ہی یوں گنوا دیا
مجھے ناز ہے میرے دل کے اپنی وفا کا میں ہی خمار ہوں
تیری تلخ باتوں سے جڑ گیا صباؔ نام میرا بھی اس طرح
کہ ابھی ابھی کسی غیر سے سنا عیب کا میں دیار ہوں