کھل اٹھے ہیں زخم پھولوں کی طرح

کھل اٹھے ہیں زخم پھولوں کی طرح
کوئی آیا ہے بہاروں کی طرح


حسرتوں کی بد نصیبی دیکھیے
بجھ گئیں ساری چراغوں کی طرح


خواب کی بھی سسکیاں سن لیجئے
ٹوٹ کے بکھرے ہیں شیشوں کی طرح


سرسری سی اک نظر ان کی پڑی
آج ہم بھی ہیں ہزاروں کی طرح


لطف جانے کا جہاں سے بڑھ کے ہو
یاد گر آؤں مثالوں کی طرح


اب صباؔ کب تک کرے گی انتظار
اس کا آنا ہے ہواؤں کی طرح