تیری بزم طرب کی سر خوشی کچھ اور کہتی ہے
تیری بزم طرب کی سر خوشی کچھ اور کہتی ہے
مرے ماحول کی سنجیدگی کچھ اور کہتی ہے
فضائے شام مے خانہ ابھی کچھ اور کہتی ہے
ہماری شدت تشنہ لبی کچھ اور کہتی ہے
فروزاں تو ہے بام زندگی فن کے چراغوں سے
مگر عہد ہنر کی روشنی کچھ اور کہتی ہے
تمہاری چاک دامانی بہ فصل گل بجا یارو
مذاق عشق کی شائستگی کچھ اور کہتی ہے
تقاضا ہے تمہاری خستگی کا تم ٹھہر جاؤ
ہماری آبلہ پائی ابھی کچھ اور کہتی ہے
لہو روتے ہوئے گو عمر گزری ہے محبت میں
مگر قصے کی رنگینی ابھی کچھ اور کہتی ہے
ادائے شوخ جن آنکھوں میں ہوتی تھی تکلم کی
اب ان آنکھوں کی گہری خامشی کچھ اور کہتی ہے
بجا ہے پردہ داریٔ شکست آرزو ناظمؔ
ترے لب کی مگر پھیکی ہنسی کچھ اور کہتی ہے