تصور میں بہت کیں انجمن آرائیاں ہم نے
تصور میں بہت کیں انجمن آرائیاں ہم نے
سلیقے سے گزاریں اس طرح تنہائیاں ہم نے
عجب کیا ہے جو تم نے وقت کی انگڑائیاں دیکھیں
بدل ڈالی ہیں اکثر وقت کی انگڑائیاں ہم نے
وہیں پر آج شور نالہ و شیون بپا دیکھا
جہاں دیکھی تھیں کل بجتی ہوئی شہنائیاں ہم نے
ہزاروں کلفتیں تھیں زندگی کی راہ میں لیکن
نہ پڑنے دیں غم و آلام کی پرچھائیاں ہم نے
حبابؔ اس دور پر آشوب میں قدر ہنر کیا ہو
سمو کر گرچہ رکھ دیں شعر میں گہرائیاں ہم نے