ترک تعلق

سوچتے تھے کہ ہو نا واقف آداب وفا
تم میں تو ترک تعلق کا سلیقہ بھی نہیں
دیکھ کے ہم کو
پریشان سے ہو جاتے ہو
دو قدم بڑھتے ہو
گھبرائے سے رک جاتے ہو
لب پہ بے ساختہ سی بات
ٹھہر جاتی ہے
جانے کیا سوچ کے ماتھے پہ نمی آتی ہے
اب کسے کہتے ہو جاناں
کبھی پوچھا ہم نے
ہم پہ تو خیر جو گزری
تمہیں ٹوکا ہم نے
پھر یہ الجھن یہ تردد یہ شکایت کیسی
ہم ہوئے غیر تو
غیروں پہ عنایت کیسی