تقدیر کے لکھے سے سوا بن گئے ہیں ہم
تقدیر کے لکھے سے سوا بن گئے ہیں ہم
بندہ نہ بن سکے تو خدا بن گئے ہیں ہم
مرنا بھی اب محال ہے جینا بھی اب محال
اپنے کیے کی آپ سزا بن گئے ہیں ہم
مجبور جبر عشق ہیں مختار ضبط غم
تم ہی ذرا بتاؤ کہ کیا بن گئے ہیں ہم
ہے اب بھی التفات کا طالب دل حزیں
تسلیم کہ راضی بہ رضا بن گئے ہیں ہم
گم گشگان دشت محبت ہوں مستفید
راہ طلب میں شمع وفا بن گئے ہیں ہم
اب تو خوشی ہے ہاتھ میں غم ہے نہ مرگ و زیست
المختصر کہ تیری رضا بن گئے ہیں ہم
ترک طلب کے فیض سے دل اب ہے مطمئن
اپنی سزا کی آپ جزا بن گئے ہیں ہم