جنگ حیات و موت میں کیا کیا نہیں ہوا

جنگ حیات و موت میں کیا کیا نہیں ہوا
گزرا ہے درد حد سے پہ چارہ نہیں ہوا


میں نے سدا رکھیں یہیں قطروں سی فطرتیں
میں آج تک غرور کا دریا نہیں ہوا


کیا حادثہ ہے یہ بھی کہ رشتہ ترا مرا
بس بیج رہ گیا کبھی پودا نہیں ہوا


جب علم نے جہان کو تقسیم کر دیا
اچھا ہے لا خرد ہوں میں دانا نہیں ہوا


بیماریوں میں آئے گا پرسش کو روز وہ
یہ سوچ کر سحابؔ میں اچھا نہیں ہوا