رات جب ٹوٹ کر بکھر جائے

رات جب ٹوٹ کر بکھر جائے
جاگنے والا پھر کدھر جائے


عمر گزری ہے جیسے کانوں سے
سرسراتی ہوا گزر جائے


اپنی یادیں بھی ساتھ لے جا تو
یہ ترا قرض بھی اتر جائے


تیز چلنے میں گر نہ جائے کہیں
وقت سے بول دو ٹھہر جائے


اب تو تو بھی نہیں ہے دھڑکن میں
دل کا کیا کام اب وہ مر جائے