جو موت ہے زندگی کے پیچھے تو موت کے پیچھے زندگی کیوں

جو موت ہے زندگی کے پیچھے تو موت کے پیچھے زندگی کیوں
غمی کے پیچھے بھی گر خوشی ہے خوشی کے پیچھے ہے پھر غمی کیوں


یہ نفرتیں یہ کدورتیں کیوں ہیں آگے سیرت سے صورتیں کیوں
یہاں ہیں موجود اب بھی انساں پھر آدمیت کی بندگی کیوں


یہ الجھنیں کیوں یہ درد و غم کیوں یہ مشکلیں کیوں یہ ٹھوکریں کیوں
ملی تو ہیں بے شمار چیزیں پھر ان کے بدلے بس اک خوشی کیوں


یہ بھی سمجھنے سے ہوں میں قاصر کہ آدمی کیوں ہوا ہے برتر
کوئی بتائے کہ آدمی سے یہاں ہر اک شے ہے قیمتی کیوں


بس ایک ہی شمع جل رہی تھی ہوا تھا سارا چمن یہ روشن
ہیں جل رہی اب ہزار شمعیں چمن میں ہے پھر بھی تیرگی کیوں


ہر ایک حسرت یہ جانتا ہے ملے گی مشکل کے بعد راحت
تو بعد مشکل کے بارہا یاں پڑا ہے مشکل میں آدمی کیوں