تمام عمر کسی کا سہارا مل نہ سکا

تمام عمر کسی کا سہارا مل نہ سکا
میں ایسا دریا تھا جس کو کنارا مل نہ سکا


تباہیوں کے مناظر ہر آنکھ روشن تھے
محبتوں کا کہیں استعارا مل نہ سکا


تمام زیست رہی نذر آبلہ پائی
سفر کے ختم کا ہم کو اشارا مل نہ سکا


کبھی جو سب کے لئے باعث محبت تھا
مجھے وجود وہ ایسا دوبارا مل نہ سکا


کھلی رہی ہیں ہمیشہ سفر میں آنکھیں مری
نگاہ شوق کو رنگیں نظارا مل نہ سکا


مری حیات میں تھی جس کے لمس کی گرمی
مرے نفس کو پھر ایسا شرارا مل نہ سکا


فضائے شہر پہ ہر سمت تھا دھواں نقویؔ
کہیں پہ کوئی بھی روشن ستارا مل نہ سکا