دیکھتے ہی دیکھتے خوشبو کے پیکر مر گئے
دیکھتے ہی دیکھتے خوشبو کے پیکر مر گئے
جس جگہ صحرا ابھر آئے سمندر مر گئے
ٹوٹ کر ملنا نہیں ممکن ہوا اس شخص سے
دل میں یہ رکھے تمنا اپنے اندر مر گئے
نام پر مذہب کے کھیلا ہے سیاست نے یہ کھیل
فتنہ پرور بچ گئے اور امن پرور مر گئے
منزل مقصود تک جو کر رہے تھے رہبری
راستوں کا زہر پی پی کر وہ رہبر مر گئے
جو تماشائی تھے وہ سیراب موجوں سے ہوئے
تشنگی کا درد لے کر سب شناور مر گئے
ایسی حالت میں بھلا کیوں کر نہ ہوتے ہم ذلیل
جن سے خودداری تھی ہم میں ایسے جوہر مر گئے
ایک لمحے کے لئے بھی وہ نہیں آیا قریں
اور ہم جذبات کی شدت سے گھٹ کر مر گئے
اب نظر کے سامنے ہے ایک ویراں رہ گزر
جو تھے آنکھوں میں مرے نقویؔ وہ منظر مر گئے