عجیب شخص ہے کہ بد حواس تک بھی نہیں

عجیب شخص ہے کہ بد حواس تک بھی نہیں
وہ قتل کرتا ہے اور پھر اداس تک بھی نہیں


نہ مجھ کو اہل خرد کی صفوں میں ٹھہراؤ
مرے نصیب میں اپنے حواس تک بھی نہیں


وہ خود کو خضر سے دیتا رہا تھا تشبیہیں
صدا دی دشت میں تو اس کی باس تک بھی نہیں


کہاں سے بدلے گا حر کی طرح تمہارا نصیب
تمہارے شہر میں اک حق شناس تک بھی نہیں


ہم اپنی پیاس بجھائیں تو کس طرح نقویؔ
ہمارے حصے میں خالی گلاس تک بھی نہیں