نگاہ شوق میں خوابوں کا اک سمندر تھا
نگاہ شوق میں خوابوں کا اک سمندر تھا
کھلی جو آنکھ تو میں حادثے کی زد پر تھا
تمام عمر میں باہر تلاش کرنے سے
خود اپنی ذات میں میں جھانکتا تو بہتر تھا
صلیب پر اسے کس جرم میں چڑھایا گیا
وہ ایک شخص جو رہبر تھا نہ پیمبر تھا
کسی بھی جنگ میں اس نے نہیں فتح پائی
یہ اور بات کہ وہ وقت کا سکندر تھا
جگا سکی نہ کسی کو ہماری چیخ کبھی
ہمارے عہد کا ہر شخص گویا پتھر تھا
تمام عمر مری خوف میں کٹی نقویؔ
جہاں قیام تھا میرا وہ کانچ کا گھر تھا