تمام عمر ہی وہم و گمان میں گزری
تمام عمر ہی وہم و گمان میں گزری
مری تو پیاس سرابوں کے دھیان میں گزری
میں چاندنی تھی زمیں پر اتر ہی آنا تھا
وہ ٹھہرا چاند تو شب آسمان میں گزری
گلی میں عشق کی مہنگا تھا وصل کا بنگلہ
تو سانس ہجر کے سستے مکان میں گزری
کہاں پہ کرتی ہے سرکار دل رعایت کچھ
کمائی عشق کی ساری لگان میں گزری
یہ عمر آدھی تو کار جہاں میں بیت گئی
بچی تھی وہ بھی سفر کی تھکان میں گزری