اب مریض عشق کو کیسا ٹھکانہ چاہیے
اب مریض عشق کو کیسا ٹھکانہ چاہیے
آتش دل کو ہوا پر آشیانہ چاہیے
لگ گئیں ہیں داؤ پر سانسیں بساط عشق میں
اس طرف یا اس طرف طے ہو ہی جانا چاہیے
روح کو تیری ضرورت اس قدر ہے جان جاں
زیست کے خاطر ضروری آب و دانا چاہیے
دن ڈھلے ہی لوٹ آتے ہیں پرندے شاخ پر
ہو گئی اب رات تجھ کو لوٹ آنا چاہیے
اب تھکن تک جا چکی ہیں حسرتیں دیدار کی
خشک آنکھوں میں سمنؔ دریا سمانا چاہیے