ساتھ موسم کے ہوا کو بھی مچل جانا تھا

ساتھ موسم کے ہوا کو بھی مچل جانا تھا
دھوپ کو شمس کی باہوں میں پگھل جانا تھا


شام سے صبح تلک دل تھا تری سرحد میں
ایسے حالات میں تو تیر کو چل جانا تھا


آؤ اب دیکھو دھواں ہوتے ہوئے چھپر کو
یا تو چنگاری کے لگتے ہی سنبھل جانا تھا


یاد یوں بھی نہیں رکھنے تھے ہمیں کچھ رشتے
بعد اک وقت کے مطلب ہی بدل جانا تھا


اس کی جانب سے ہی کوشش میں کمی تھی ورنہ
اب کے بھی ترک تعلق اسے کھل جانا تھا


چاک کے ہاتھ کھڑے کرنے سے پہلے ہی سمنؔ
تیری مٹی کو کسی شکل میں ڈھل جانا تھا