ابھی ہجر دامن میں اترا نہیں ہے

ابھی ہجر دامن میں اترا نہیں ہے
مگر وصل کا بھی تو چرچا نہیں ہے


ابھی دھوپ آنگن میں کھل کے نہ آئی
ابھی رات سے ربط ٹوٹا نہیں ہے


خبر تیرے آنے کی جس دن ملی تھی
اسی دن سے کھڑکی پہ پردہ نہیں ہے


انا کو لیے کب سے بیٹھا ہے دریا
جگہ سے سمندر بھی ہلتا نہیں ہے


ندی آس میں سوکھ جائے گی اک دن
یہ نادان بادل برستا نہیں ہے


گیا زیست کا آخری موڑ کہہ کر
کسی کے لیے وقت ٹھہرا نہیں ہے


وہاں عشق کا پاؤں پڑتا ہے اکثر
جہاں سے سمنؔ آگے رستہ نہیں ہے