کہہ دیا یوں ہی بے وفا مجھ کو

کہہ دیا یوں ہی بے وفا مجھ کو
بات آخر ہے کیا بتا مجھ کو


رونقیں گم ہیں میرے چہرے کی
روز کہتا ہے آئنہ مجھ کو


ٹوٹ کر شاخ سے بکھرنا ہے
گرم لگتی ہے اب ہوا مجھ کو


چار دن میں ہی تھک گئے تھے قدم
پھر ملا غم کا آسرا مجھ کو


دل جو ہارا تو پھر بچے گا کیا
زندگی اب نہ آزما مجھ کو


ڈھنگ کا کچھ نہ وہ بنا پایا
عمر بھر چاک پر رکھا مجھ کو


ہاتھ میں قید ہے سمنؔ قسمت
روٹھنے تک گماں رہا مجھ کو