تلخیٔ ایام رہن جام کی
تلخیٔ ایام رہن جام کی
بادہ خانے میں بسر ہر شام کی
بزم میں ساقی کی چشم مست نے
شرم رکھ لی ایک تشنہ کام کی
کاش سن لیتے وہ میری داستاں
بات رہ جاتی دل ناکام کی
مٹ نہ پائی زندگی کی تلخیاں
بادہ نوشی ہم نے گو ہر شام کی
ہم کہاں تھے اس قدر بے رنگ و نام
دوستو گردش ہے صبح و شام کی
بادہ خواروں نے نہ چلنے دی کوئی
میکدے میں گردش ایام کی
اس نگاہ مختصر کا شکریہ
بات بن آئی دل ناکام کی
عاصیؔ کم ظرف نے ہنگام میں
انجمن کی انجمن بدنام کی