آخری خط
رات کا وقت ہے آہوں کا دھواں ہو جیسے
چاند خاموش ہے روٹھی ہوئی قسمت کی طرح
سرمئی طاق میں مٹی کا دیا جلتا ہے
کروٹیں لیتی رہی اونگھتے کمرے کی فضا
اور میں رات کے روتے ہوئے سناٹے میں
پڑھ رہا ہوں کہ جسے عہد وفا کہتے ہیں
ساتھ دیتا نہیں تاریکی میں سائے کی طرح
شدت کرب میں ڈوبے ہوئے لمحوں کی گھٹن
لوٹ آئی ہے جو ماضی کا جھروکا ٹوٹا
سامنے بند لفافے میں تمہارے خط ہیں
اور میں سوچ رہا ہوں کہ تمہیں کیا لکھوں