ٹیگور

سحر کے وقت جب ٹھنڈی ہوائیں سرسراتی ہیں
چمن کا رنگ کھل جاتا ہے کلیاں مسکراتی ہیں


پرندے تولتے ہیں پر نکل کر آشیانے سے
فضائیں گونج اٹھتی ہیں عنادل کے ترانے سے


تخیل آدمی کا جب نئی تشکیل پاتا ہے
نظام بزم عالم میں تغیر ہوتا جاتا ہے


ہزاروں مرد میداں خون پانی ایک کرتے ہیں
رہ مشکل طلب سے تب کہیں آساں گزرتے ہیں


کوئی بیمار کا جب پوچھنے والا نہیں ہوتا
مرض بڑھتا ہی جاتا ہے مگر اچھا نہیں ہوتا


مجھے ٹیگور کا گزرا زمانہ یاد آتا ہے
ٹپک پڑتے ہیں آنسو وہ فسانہ یاد آتا ہے


پیام زندگی لے کر جو آیا تھا زمانے میں
قیامت ہے اسی کو موت نے چھانٹا زمانے میں