ہولی

بج رہے ہیں مدھ بھری آواز میں ہولی کے ساز
کھنچ کے آنکھوں میں نہ آ جائے دل حرماں نواز


کھیلتی ہیں رنگ آپس میں کنواری لڑکیاں
گیت ہولی کے زباں پر ہاتھ میں پچکاریاں


نالیوں میں گر رہے ہیں لوگ پی پی کر شراب
ملک میں شاید نہیں ان کے لیے کوئی عذاب


دے رہا ہے گالیاں بے نطق ہر پیر و جواں
واہ کیا کہنا تری تہذیب کا ہندوستاں


یوں جلائی جا رہی ہیں سینکڑوں من لکڑیاں
اپنے شوہر پر ستی ہوں جس طرح ہندوانیاں


اس طرح لکڑی جلانے سے کہیں چلتا ہے کام
کس قدر مہمل ہے اے سوسائٹی تیرا نظام


کچھ گھر ایسے ہیں جہاں جلتے نہیں شب کو چراغ
غور فرماتے نہیں اس پر مگر اہل دماغ


لکڑیاں چن چن کے لاتی ہیں سروں پر بوڑھیاں
جھونپڑی سے تب کہیں اٹھتا ہے ہلکا سا دھواں


تا بہ کے یہ رسم بے جا تا بہ کے یہ سفلہ پن
آؤ کھیلیں خون کی ہولی جوانان وطن