مرزا غالبؔ

اندھیری رات میں جب مسکرا اٹھتے ہیں سیارے
ترنم پھوٹ پڑتا ہے مرے ساز رگ جاں سے


کوئی انگڑائیاں لیتا جب آ جاتا ہے محفل میں
تمنا کروٹیں لیتی ہے پیہم دکھ بھرے دل میں


نگاہیں بادۂ رخ سے خمار آمیز ہوتی ہیں
شرابی کی طرح جب جھومتی ہیں عشق کی نبضیں


کوئی ٹیگورؔ کے جب میٹھے میٹھے گیت گاتا ہے
معلم گوئٹےؔ کا فلسفہ جس دم سناتا ہے


ترے اشعار پڑھتا ہوں ترے نغمات گاتا ہوں
کمال کیف و فرط بے خودی میں جھوم جاتا ہوں