ہندوستانی لیڈر
لالچی کتنے خوشامد خور دولت کے غلام
خود غرض مکار ابن الوقت جھوٹوں کے امام
بندۂ حرس و ہوس غدار مطلب آشنا
پیسے کی خاطر وطن کو بیچنے والے بتا
کیا تجھے احساس محکومی کبھی ہوتا بھی ہے
تو کبھی ہندوستاں کے حال پر روتا بھی ہے
کیا سنی بھی ہے کبھی مزدوروں کے دل کی پکار
کیا کبھی تو نے جھنجھوڑے بازوئے سرمایہ دار
کیا کبھی تو بھی وہاں پہنچا ہے اے ظلمت مآب
جگمگاتا ہے جہاں علم و عمل کا آفتاب
تیرے سینے میں کبھی بھڑکی بھی ہے عبرت کی آگ
تیری نبضوں میں کبھی مچلی بھی ہے غیرت کی آگ
تیرے قول و فعل میں تاثیر ہونی چاہیے
یعنی تیرے ہاتھ میں شمشیر ہونی چاہیے